مہاجر کہانیاں

احمد (26)

میں نے افغانستان کو 6 سال پہلے چھوڑا تھا۔ میری حفاظت کو مقامی لوگوں سے خطرہ تھا۔ میں نے پاکستان جانے کے لیے اپنے دوست کی مدد لی۔ مگر، سفر کے دوران میں زخمی ہو گیا تھا، لہٰذا میں ہسپتال میں رہا اور پھر پولیس مجھے جیل لے گئی، جہاں پر مجھے پانچ ماہ تک رکھا گیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد، میں دوبارہ افغانستان آگیا تھا۔ میرا ارادہ ابھی افغانستان سے نکلنے کا تھا، اس لیے میں پورا علاقہ عبور کرتے ہوئے کابل پہنچ گیا تھا۔ وہاں پر میری ملاقات ایک دوسرے دوست سے ہوئی اور ہم دونوں ترکی جانے پر متفق ہو گئے۔ ایک اسمگلر کی مدد سے، ہم پہلے ایران چلے گئے تھے۔ مجھے اپنی جان کا خوف تھا۔ ایران کی سرحد عبور کرتے وقت ہمیں ایک حادثہ پیش آ گیا تھا اور وہاں پر دو بندے ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ جب میں کسی ترکی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا، تو میں وہاں پر 19 افراد کے ایک گروپ کے ساتھ پانچ ماہ تک جنگل میں چھپا رہا۔ ترکی میں رہنے کے بعد، میں یونان چلا گیا تھا۔ میں نے ایک اسمگلر کی مدد حاصل کی اور ترکی کا بارڈر ہم نے کشتی کے ذریعے عبور کر لیا تھا۔ گروپ میں بچے بھی موجود تھے۔ اسمگلر مجھے یونان میں مائیٹیلین لے گیا اور اس کے بعد میں اردن کے شہر پیٹرا چلا گیا جہاں پر میں 5 سال تک رہا۔ وہاں پر میں کام کی اجازت کے بغیر ہی ایک سیلز مین کے طور پر کام کرتا رہا۔ اس کے بعد، میں واپس یونان آ گیا اور وہاں پر میں نے پناہ کی درخواست دے دی۔ جب میں سیاسی پناہ کے عمل میں تھا، تو اس گروپ کے لوگوں نے، جنہوں نے مجھے افغانستان میں دھمکیاں دی تھیں، مجھے دوبارہ ڈھونڈ لیا۔ انہوں نے کئی بار مجھ پر وار کیا اور مجھے ایک ماہ تک ہسپتال میں رہنا پڑا۔ پھر بھی اپنی جان کے خوف سے، میں نے فیصلہ کیا کہ میں سیاسی پناہ کی کارروائی مکمل ہونے کا انتظار نہیں کر سکتا، لہٰذا میں وہاں سے بھی بھاگ گیا۔ ابھی کے لیے، میں مغربی بلقان میں رہنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اس لیے میں نے پناہ کے لیے درخواست دی ہے۔ میں مقامی زبان سیکھ رہا ہوں اور، اگر مجھے پناہ مل جاتی ہے، تو میں قانونی طور پر ملازمت حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔ میں یہاں پر خوش ہوں۔ تاہم، اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میرا سفر ایسا گزرے گا، تو میں افغانستان کو ہی نہ چھوڑتا۔ اس کی بجائے، میں اپنے خطرات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتا۔ اس دوران، میری والدہ بھی انتقال کر گئیں اور مجھے افسوس ہے کہ میں وہاں پر موجود نہیں تھا۔ تاہم، میں مثبت رہنے کی کوشش کرتا ہوں اور اس ساری صورت حال کا روشن پہلو دیکھتا ہوں۔

جوزف (23)

میں نے کانگو کو 3 سال سے زیادہ عرصہ پہلے چھوڑا تھا۔ میری دادی میرا خیال رکھتی تھی، کیونکہ میرے والد بیرون ملک رہتے تھے اور ہر ماہ ہمیں پیسے بھیجتے تھے۔ مجھے اپنے خاندان کے ساتھ مسائل تھے اور یہاں تک کہ مجھے ان کی طرف سے شدید مار پیٹ کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مارپیٹ کی وجہ سے مجھے کئی زخم بھی آئے ہیں۔ آخر کار، کیونکہ مجھے اپنی زندگی کو خطرہ محسوس ہوتا تھا، لہٰذا میں نے کانگو سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔

کانگو چھوڑنے سے پہلے، ایک پادری مجھے ملک کے دوسرے حصے میں لے گیا اور اس نے وہاں پر میری مدد کی۔ اس نے میری والدہ کو فون کیا کہ پیسے بھیجیں تاکہ میں سفری دستاویزات حاصل کر سکوں۔ میں وہاں سے قانونی طور پر ترکی پہنچ گیا۔ میں اپنے دوست کے گھر پر 6 ماہ تک رہا۔ کمائی ہوئی رقم سے، میں اپنا کرایہ اور بل پورا نہیں کر سکتا تھا، اس لیے مجھے اپارٹمنٹ چھوڑنا پڑا۔ میں نے ترکی چھوڑا اور ایک اسمگلر کی خدمات استعمال کرتے ہوئے یونان چلا گیا۔ میں نے 50 افراد کے ایک گروپ میں کشتی کے ذریعے سمندر پار کیا اور میں نے اسمگلر کو 500 امریکی ڈالر ادا کیے۔ وہ ہمیں جزیرہ کوس میں لے گیا۔ میں وہاں پر ایک مہینے تک رہا۔ کوویڈ-19 کی وجہ سے، میں پناہ حاصل نہیں کر سکا تھا اور مجھے ایتھنز کے قریب ملاکاسا میں منتقل کر دیا گیا۔ میں نے ملاکاسا میں پناہ کی درخواست کی اور میں ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے تک پناہ کے متلاشیوں کے مرکز میں رہا۔ مجھے دو بار پناہ دینے سے انکار کیا گیا اور دوسری بار انہوں نے پناہ کے طریقہ کار کے حصے کے طور پر میرے تمام دستاویزات بھی اپنے پاس رکھ لیے۔ پچھلے دو مہینوں سے، میں 15 لوگوں کے ساتھ کرائے کے ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔ حالات بہت خراب تھے اور میں نے ملک کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے مغربی بلقان میں پناہ حاصل کی کیونکہ میں تحفظ حاصل کرنا چاہتا ہوں، یہی میرے لیے سب سے اہم ہے۔

Share
Share
Tweet

Project implemented by